مجید امجد ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۴ء میں ساٹھ برس کی عمر میں___ جب ہمارے ملک میں لوگ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہیں، مجید امجد سرکاری ملازمت اور زندگی کے بندھنوں سے آزاد ہو گئے۔ مجیدامجد بیسویں صدی کے شعری ادب میں معجز ہۂ فن اور تخلیقی سحرانگیزی کی ایک دلکش مثال ہیں۔ علامہ اقبال کے بعد مجیدامجد واحد شاعر ہیں جنھوں نے زمان و مکان اور کائناتی حقیقتوں کا فلسفیانہ مشاہدہ کیا اور ماضی کے تہذیبی ورثے کو حال کی دھڑکتی ساعتوں سے ہم آہنگ کر کے مستقبل کی آنکھ میں چھپی نورانی حقیقتوں کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کی۔
مجیدامجد نے وقت کے دیوتا کی حسین رتھ کے پہیوں تلے پسنے والے صدیوں کے ہنگامے اور صدہا ہیولوں کے نوحے لکھنے کی بجائے اپنے شعری دولاب کی آستینوں میں ان گنت جہانوں کی گردش کو محفوظ کر لیا۔ اس نے اپنی زندگی کے لمحۂ مختصر میں شاعری کو زادِ راہ بنا کر اس روشنی تک رسائی حاصل کی جو صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ مجیدامجد نے ستاروں، سیّاروں اور خلاؤں کے باطن میں چھپی وسعتوں اور تنہائیوں کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں محسوس کیا، مگر اسے زندگی کا اثبات امروز کی دھڑکنوں میں ملا۔ اسے چڑیوں کی چہک، پھولوں کی مہک اور چوڑیوں کی چھنک سے جینے کا حوصلہ ملا۔ جو شاعر اشکوں سے شاداب دوچار صبحیں اور آہوں سے معمور دوچار شامیں گزار کر اداسی، تنہائی اور بے کسی کی آغوش میں ابدی نیند سو گیا۔ وہی شاعر، وہی مجیدامجد آج جدید اردو نظم کی سب سے معتبر آواز بن کر ایک عالم سے اپنی عظمت کا خراج لے رہا ہے۔
مجیدامجد ایک صوفی منش، درویش صفت شاعر تھا جس کی نظمیں وقت کی بے رحم آندھیوں میں تنکوں کی طرح بکھر جاتیں اگر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا انہیں جمع کرکے آشیانہ نہ بنا دیتے۔ کلیاتِ مجیدامجد کی تدوین پر اردو ادب ہمیشہ ان کا ممنون رہے گا۔ اردو دنیا نے ۲۰۱۴ء کو مجیدامجد صدی کے طور پرمنایا، اس حوالے سے بہت سی تقاریب منعقد ہوئیں، بہت سی کتابیں منظرعام پر آئیں مگر پھر بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ:
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
مجیدامجد ایک آفاقی شاعر تھا۔ جس کی فکر کا دائرہ کائنات سے عصری حیات تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر تھا جس نے زندگی کے بے رنگ واقعات کو شاعری بنا دیا۔ جس نے ذرّے کے دل میں چھپی دھڑکنیں سنیں، جس نے بورُلدے چھتنار درختوں کے کٹنے پر آنسو بہائے، جس نے فطرت کے سبھی رنگوں سے غیرمشروط محبت کی۔ جس نے ابد کے سمندر کی موج کے دوش پر اپنی زندگی کی کہانی لکھی۔ جس نے دنیائے امروز کو اپنے دل کی دھڑکنیں عطا کیں۔ جو خود تو وقت کی بے رحم تاریکیوں کی نذر ہو گیا مگر اردو شاعری کی مانگ چاند، ستاروں سے بھر گیا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مجیدامجد کی موت ان کی حیاتِ جاوداں بن گئی مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے زمانے کے بڑے لوگوں کو پہچاننے میں کب تک مجرمانہ غفلت برتتے رہیں گے، کب تک بڑے لوگوں کو ادبی حیات پانے کے لیے کسمپرسی اور بے چارگی کی موت کو گلے لگانا پڑے گا؟ مختار مسعود نے اپنی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘ میں لکھا کہ بڑے آدمی کسی قوم کو انعام پر دیے اور سزا کے طور پر واپس لے لیے جاتے ہیں۔ ہم نے مجیدامجد کی قدر نہیں کی مگر وہ ہمارے لیے اپنا شعری ورثہ چھوڑ گیا کیونکہ بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مجیدامجد ایک بڑا شاعر تھا جس نے دنیا کے امروز کو خوب صورت اور خوش گوار بنانے کا خواب دیکھا۔ جس نے فرضی اور خیالی دنیا تخلیق کرنے کی بجائے موجود دنیا کی بے رنگی میں رنگ اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرنیں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔
آج کا پاکستان اپنی قومی زندگی کے جس موڑ پر کھڑا ہے وہاں مجید امجد کے تصورِ امروز سے روشنی اور تحریک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں منافرت، تعصب اور انتہاپسندی کے گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے ان جھونکوں کی ضرورت ہے جو مجیدامجد کی شاعری میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔
مجیدامجد کی ایک مشہور غزل کی ردیف ’’گلاب کے پھول‘‘ ہے۔ اس غزل کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجیدامجد نے یہ غزل پشاور کے آرمی سکول کے سرخ گلابوں کے لیے لکھی تھی:
سلگتے جاتے ہیں چپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
مجیدامجد نے وقت کے دیوتا کی حسین رتھ کے پہیوں تلے پسنے والے صدیوں کے ہنگامے اور صدہا ہیولوں کے نوحے لکھنے کی بجائے اپنے شعری دولاب کی آستینوں میں ان گنت جہانوں کی گردش کو محفوظ کر لیا۔ اس نے اپنی زندگی کے لمحۂ مختصر میں شاعری کو زادِ راہ بنا کر اس روشنی تک رسائی حاصل کی جو صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ مجیدامجد نے ستاروں، سیّاروں اور خلاؤں کے باطن میں چھپی وسعتوں اور تنہائیوں کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں محسوس کیا، مگر اسے زندگی کا اثبات امروز کی دھڑکنوں میں ملا۔ اسے چڑیوں کی چہک، پھولوں کی مہک اور چوڑیوں کی چھنک سے جینے کا حوصلہ ملا۔ جو شاعر اشکوں سے شاداب دوچار صبحیں اور آہوں سے معمور دوچار شامیں گزار کر اداسی، تنہائی اور بے کسی کی آغوش میں ابدی نیند سو گیا۔ وہی شاعر، وہی مجیدامجد آج جدید اردو نظم کی سب سے معتبر آواز بن کر ایک عالم سے اپنی عظمت کا خراج لے رہا ہے۔
مجیدامجد ایک صوفی منش، درویش صفت شاعر تھا جس کی نظمیں وقت کی بے رحم آندھیوں میں تنکوں کی طرح بکھر جاتیں اگر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا انہیں جمع کرکے آشیانہ نہ بنا دیتے۔ کلیاتِ مجیدامجد کی تدوین پر اردو ادب ہمیشہ ان کا ممنون رہے گا۔ اردو دنیا نے ۲۰۱۴ء کو مجیدامجد صدی کے طور پرمنایا، اس حوالے سے بہت سی تقاریب منعقد ہوئیں، بہت سی کتابیں منظرعام پر آئیں مگر پھر بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ:
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
مجیدامجد ایک آفاقی شاعر تھا۔ جس کی فکر کا دائرہ کائنات سے عصری حیات تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر تھا جس نے زندگی کے بے رنگ واقعات کو شاعری بنا دیا۔ جس نے ذرّے کے دل میں چھپی دھڑکنیں سنیں، جس نے بورُلدے چھتنار درختوں کے کٹنے پر آنسو بہائے، جس نے فطرت کے سبھی رنگوں سے غیرمشروط محبت کی۔ جس نے ابد کے سمندر کی موج کے دوش پر اپنی زندگی کی کہانی لکھی۔ جس نے دنیائے امروز کو اپنے دل کی دھڑکنیں عطا کیں۔ جو خود تو وقت کی بے رحم تاریکیوں کی نذر ہو گیا مگر اردو شاعری کی مانگ چاند، ستاروں سے بھر گیا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مجیدامجد کی موت ان کی حیاتِ جاوداں بن گئی مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے زمانے کے بڑے لوگوں کو پہچاننے میں کب تک مجرمانہ غفلت برتتے رہیں گے، کب تک بڑے لوگوں کو ادبی حیات پانے کے لیے کسمپرسی اور بے چارگی کی موت کو گلے لگانا پڑے گا؟ مختار مسعود نے اپنی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘ میں لکھا کہ بڑے آدمی کسی قوم کو انعام پر دیے اور سزا کے طور پر واپس لے لیے جاتے ہیں۔ ہم نے مجیدامجد کی قدر نہیں کی مگر وہ ہمارے لیے اپنا شعری ورثہ چھوڑ گیا کیونکہ بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مجیدامجد ایک بڑا شاعر تھا جس نے دنیا کے امروز کو خوب صورت اور خوش گوار بنانے کا خواب دیکھا۔ جس نے فرضی اور خیالی دنیا تخلیق کرنے کی بجائے موجود دنیا کی بے رنگی میں رنگ اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرنیں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔
آج کا پاکستان اپنی قومی زندگی کے جس موڑ پر کھڑا ہے وہاں مجید امجد کے تصورِ امروز سے روشنی اور تحریک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں منافرت، تعصب اور انتہاپسندی کے گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے ان جھونکوں کی ضرورت ہے جو مجیدامجد کی شاعری میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔
مجیدامجد کی ایک مشہور غزل کی ردیف ’’گلاب کے پھول‘‘ ہے۔ اس غزل کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجیدامجد نے یہ غزل پشاور کے آرمی سکول کے سرخ گلابوں کے لیے لکھی تھی:
سلگتے جاتے ہیں چپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران
صدر شعبہ اردو، جامعہ پنجاب لاہور