تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کی ضمانت ہوتی ہے وہ ترقی معاشی، اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے۔ جن ملکوں نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور اپنی تعلیمی پالیسیوں کے تسلسل کے لئے مناسب منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کی وہ آج ترقی یافتہ ہیں۔
حکمرانوں نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آج تک بہتر تعلیمی پالیسیاں بنائی ہی نہیں ہیں اور اگر کو ئی پالیسی ترتیب بھی دی گئی تو اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یہ کہتے ہوئے تو بہت سنا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعلیم کی گولی سب سے بڑا ہتھیار ہے لیکن بد قسمتی سے اس ہتھیار کی جانب مناسب توجہ نہیں دی جا رہی ۔
ہر محب وطن پاکستانی اس بات سے آگاہ ہے کہ تعلیم کے فروغ کے ذریعے نہ صرف فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے ناسورکو معاشرے سے ختم کیا جا سکتاہے بلکہ غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی کامیابی کا انحصار صرف اور صرف تعلیم میں پنہاں ہے مگر ہمارے ملک میں جو بھی حکومتیں آئیں انہوں نے تعلیم پر توجہ نہ دی ۔
موجودہ حکمرانوں کے بیانات کے مطابق پنجاب سکول ریفارمز روڈ میپ کے تحت 2018 تک صوبے پنجاب کے ہر بچے کو سکول میں داخل کروانے کا ہدف پورا کیا جائے گا تاہم یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔ اگر تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد اور حکومت دونوں ملکر مشترکہ جدوجہد کریں تو شاید ان اہداف کو جذبے ، لگن اور عزم کے ساتھ پورا کیاجا سکتا ہے ۔
تمام حکمرانوں نے پاکستانی شعبہ تعلیم میں جاری منصوبوں کے تسلسل کے بجائے سیاست کو چمکانے کے لیے مختلف قسم کی نئی سکیمیں شروع کیں جیسے ایجوکیشن فا ر آل، پڑھا لکھا پنجاب اور اب دانش سکول ۔ تعلیمی انقلاب کے فروغ کے لیے مختلف پروجیکٹس شروع کیے گئے لیکن بے سود رہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا حق ہر بچے کا ہے ۔لیکن پاکستان میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات میں اربوں روپے کے لاکھوں لیپ ٹاپس تقسیم کیے گئے جبکہ حال ہی میں مدرسوں کے طلبہ کے احتجاج کرنے کے بعد ان کو بھی لیپ ٹاپ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
دانش سکولز کامنصوبہ اچھا اور قابل تعریف منصوبہ ہے لیکن حکومت کو انکی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے تا کہ ہر گاؤں اور ہر شہر کا غریب بچہ بھی وہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طرح معیاری تعلیم حاصل کر سکے ۔ ۱۸ ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں اپنے معیار تعلیم کو بہتر بنانے میں یکسر ناکام نظر آتی ہیں ۔
تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بھی بہتر سے بہتر بنایا جائے تا کہ بچے سکول جائیں اور انہیں پر امن تعلیمی ماحول مہیا ہو سکے۔ طالب علم مکتب گاہ کی طرف کھینچا چلا آئے نہ کہ درس گاہوں سے بھاگنے کا رجحان فروغ پائے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے ملک کے ریاستی اداروں کو بھی مضبوط کرنا ہوگا تعلیمی ماحول میں بہتری اور تبدیلی محض ایک فردکا کام نہیں بلکہ ہم سب کو ملکر اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے محنت کرنا ہوگی۔ تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے پالیسی کا ازسرنو جائزہ ، طویل دورانیے کے لئے منصوبہ بندی اور تعلیمی بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سیاست کا عمل دخل یکسر ختم ہو نا چاہیے۔ بنیادی تعلیم کے رائج کے لیے ملک کے کونے کونے میں مختلف قسم کی تقریبات، شعبدہ بازی میں لوگوں کو بچوں کو سکول بھیجنے میں اور تعلیمی اہمیت سے روشناس کرنے کے لیے زور دینا چاہیے۔ اس کے لیے اساتذہ کو جدید خطوط پر تربیت دینا ہوگی جس کے لیے باقاعدہ ایک پروگرام وضع کیا جائے اور اس پر عمل درآمد بھی کیاجائے۔ تعلیمی اداروں میں خالی اسامیوں پر قابل اور تجربہ کار افراد کو جلد از جلد میرٹ اور شفاف طریقے سے بھرتی مکمل کی جانی چاہیے۔
ملک کے ہر فرد کو ملکر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے اپنے ملک پاکستان کو ترقی کی منازل کی جانب گامزن کرنا ہوگا ،کیونکہ تعلیم ہی ترقی اور امن کی ضمانت ہے اور ملکی ترقی تعلیم سے مشروط ہے۔