KIPS گروپ آف آکیڈمیز،سکولزاینڈ کالجز کے مالک عابد وزیر خان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے نام پر بہت زیادہ فراڈ ہورہا ہے،
حکومت کا سرکاری پرائمری سکولوں کو نجی اداروں کے حوالے کرنا بد قسمتی ہے، فیسوں کے معاملے میں نجی ادارے مجبور ہیں۔ میری فلاسفی کے مطابق انٹری ٹیسٹ نہیں ہونا چاہیے ۔ سول انجینئر ہونے کے باوجود شعبہ تعلیم سے تعلق قائم کیا ۔
مستقبل میںیونیورسٹی بنانے کا ار
ادہ رکھتا ہوں۔ KIPSگروپ کے مالک کے’’ دی ایجوکیشنسٹ ‘‘کیلئے خصوصی انٹرویو کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:۔
دی ایجوکیشنسٹ: سب سے پہلے اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں کچھ
بتائیں ؟
عابد وزیر خان: اوکاڑہ کے گاؤں میں پیدا ہوا۔ والد صاحب نے ایگریکلچرل یونیورسٹی سے بی ایس کیا تھا۔ والد صاحب مختلف فورمز پر کام کرتے تھے جسکی وجہ سے مختلف شہروں کے اداروں سے تعلیم حاصل کی۔کلاس چہارم میں تھاجب لاہورآئے اور مڈل تک تعلیم لاہور میں پنجاب یونیورسٹی لیبارٹری سکول سے حاصل کی۔میٹرک پائلٹ ہائی سکول سے کیا جبکہ انٹر گورنمنٹ کالج سے کیا۔ یونیورسٹی آف انجینئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی سے انجینئر نگ کی اور شعبہ تعلیم کو اپنایا۔
دی ایجوکیشنسٹ:سول انجینئرہونے کے باوجود شعبہ تعلیم اختیار کرنے کی کوئی خاص
وجہ؟
عابد وزیر خان: ۱۹۸۳ میں انٹڑ کے بعد میں نے دو سال ایک سکول میں پڑھایا تھا۔ اس زمانے میں انٹر کے دو سال بعدیو۔ای۔ٹی میں داخلے ہوتے تھے۔تو طالب علم بی ایس سی میں داخلہ لیتے تھے اور دو سال کالج میں مزے کرتے تھے۔میں نے ایڈمیشن تو لیا مگر ساتھ ہی سکول میں پڑھانا شروع کردیا جس کے بعد مجھے پتا چلا کہ مجھے پڑھانے کا شوق ہے۔میں سمجھتا ہوں ہمارے معاشرے میں تعلیم کے نام پر بہت زیادہ فراڈ ہورہا ہے۔ میں نے جس سکول میں پڑھایا ادھر مجھے مزا نہیں آیا اور مجھے احساس ہوا کہ بچوں کو جس طرح سے پڑھایا جانا چاہیے وہ کام اس طرح سے ہو نہیں رہا۔لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے تعلیم کے شعبے میں کام کرنا چاہیے۔حادثا تی طور پر جلد اس شعبے سے منسلک ہوگیا کیونکہ میں جب یو ای ٹی سے فارغ ہوا تو میرے والد صاحب کو بزنس میں نقصا ن ہوا جسکی وجہ سے میرے لیے روزگار تلاش کرنا ضروری ہوگیا اور میں نے ۱۹۹۰ میں “knowledge inn”کے نام سے ایک اکیڈمی شروع کی۔لیکن جب والد صاحب کی جاب بہتر ہوئی تو وہ اکیڈمی بند کردی۔پھر والد صاحب کی وفات کے بعد اسے دوبارہ سے شروع کیا۔شروعات حادثاتی تھی لیکن پیچھے وہ جذبہ موجود ہے کہ تعلیم کے لیے کچھ کرنا ہے کیونکہ اس کے ذریعے نہ صرف آپ ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں بلکہ مستقبل کے بارے میں اسکی راہنمائی بھی کرتے ہیں اور مستقبل صرف ایک فرد کا نہیں ہوتا، بلکہ ایک فرد کی وجہ سے پورے ملک کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں اس سے بڑا نیک کام اور کوئی نہیں۔
دی ایجوکیشنسٹ: KIPS کا آغاز کیسے ہوا؟
عابد وزیر خان :۱۹۹۰ میں’’ نالج ان ‘‘کے نام سے مسلم ٹاؤن میں اکیڈمی قائم کی۔ لیکن ہم اکیڈمی نہیں لکھتے تھے ۔پھر۱۹۹۲ میں فیصل ٹاؤن میں یہ اکیڈمی دوبارہ سے شروع کی۔۱۹۹۷ میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے کی ابتداء کی۔ پہلے سال ہم نے فاسٹ وغیرہ کی تیاری کروائی۔پھر انٹری ٹیسٹ کے حوالے سے اسکا نام (Knowledge Inn Preparatory School) KIPS رکھ دیا گیا اور اب یہ ہمارا ٹریڈ مارک بن گیا ہے۔کپس کے دو جز ہیں۔ ایک ریگولر پریپ کے نام سے ہے اور دوسرا کپس پریپریشنز ہے۔
دی ایجوکیشنسٹ: KIPS کی کامیابی کا راز کیا ہے؟
عابد وزیر خان :ہم جو بھی کام کرتے ہیں اسکے پیچھے کچھ بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ ہماری ترقی کے پیچھے ۵ آیز (5 i’s) کا فارمولا کار فرما ہے۔
پہلا i : نیت .(intention)یعنی جو بھی آپ کام کرتے ہیں اسکے پیچھے آپکی نیت کیا ہے۔اسلام کے مطابق بھی ہر عمل کا دارمدار نیتوں پر ہے۔ دوسرا i : معلومات (information) یعنی آ پ جو بھی کام کرہے ہیں اسکے بارے میں آپکو مکمل معلومات ہونی چاہیے جیسے جب کپس نے انٹری ٹیسٹ کی ابتداء کی تو ہمارے پاس ہر ادارے اور اس کے انٹری ٹیسٹ سے متعلق ، چاہے وہ LUMS ہو یا NUST ،مکمل معلومات ہوتی تھی۔اسی طرح میٹرک سے متعلق بھی کہ اگر ایک جما عت دہرانی ہے تو کیا کرنا چاہیے۔غرض کہ ہم اپنی انفارمیشن ڈیسک کو ہر طرح کی معلومات فراہم کرتے تھے۔ تیسرا i : ملوث ہونا (involvement) یعنی آپ اپنے کام کودل لگا کر اور دھیان سے سر انجام دیں۔ ہم پوری تن دہی سے اپنا ہر کام ساتھ لیکر چلتے ہیں خواہ وہ طلباء ہوں، اساتذہ کرام ہوں یا والدین۔پیرنٹس ٹیچر میٹینگ جب منعقد کرائی جاتی ہے تو اسکے پیچھے کوئی اہم بات ضرور ہوتی ہے اور والدین کو آگہی فراہم کی جاتی ہے۔ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کپس ہی وہ واحد ادارہ ہے جہاں طالب علوں کی مشاورت کی جاتی ہے انہیں مستقبل اور تعلیم کے حوالے سے ہدایات دی جاتی ہیں تاکہ وہ بہتر راستہ اختیار کر سکیں۔
چوتھا i : مراعات (incentives) جو لوگ آپ کے ساتھ کام کرہے ہیں انکا خیال رکھنا ہے۔کپس میں جو بھی آیا ہے خواہ وہ چھوٹے درجے پر آیا ہو، ترقی اسکا مقدر بنی ہے۔اور پھر ہم نے ہمیشہ ٹیم ورک کو فروغ دیا ہے۔ “میں” کی بجائے “ہم ” بن کر کام کیا ہے۔
پانچواں i : ہر چیز پر نظر رکھنا (Keep an Eye on Everything)
دی ایجوکیشنسٹ: KIPS کو کن ابتدائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
عابد وزیر خان: پاکستان میں آپ کوئی بھی کام شروع کریں ، مشکلات تو آتی ہی ہیں۔ ہمیں حکومتی اداروں کی طرف سے ہمیں سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ پلاٹ لینے جائیں تو LDA کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ہم اپنی ہمت سے ان تمام مشکلات کو حل کر کے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
دی ایجوکیشنسٹ: KIPS کون کون سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے؟
عابد وزیر خان: KIPS کے ۴ قسم کے منصوبے ہیں۔ ایک سکولز ہیں جو کہ لاہور اور ملتان میں واقع ہیں۔ لاہور میں ۳ جگہوں پر سکول کھوے ہوئے ہیں۔ جوہر ٹاؤن، علامہ اقبال ٹاؤن اور مغلپورہ۔کالجز کے منصوبے اس وقت پانچ شہروں میں چل رہے ہیں۔ ملتان، لاہور ،گجرانوالہ، قصور اور فیصل آباد۔امکان ہے کہ اس سال چھٹا شہر بھی شامل ہوجائے جو کہ راولپنڈی ہوگا۔ اس کے علاوہ اکیڈمیز ہمارا مرکزی منصوبہ ہے۔ اور اس وقت ۲۵ شہروں میں قائم ہے۔بلوچستان کے علاوہ تقریباً ہر صوبے میں اسکی شاخیں ہیں۔ جبکہ لاہور میں ۲۰ سے زائد جگہوں پر اسکی شاخیں موجود ہیں۔
دی ایجوکیشنسٹ: آجکل نجی تعلیمی اداروں میں بچے بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔کیا آپکو نہیں لگتا کے بچوں کوذہنی طور پر تو طاقتور بنایا جا رہا ہے مگر ان کی صحت کے حوالے سے اقدامات دیکھنے میں نہیںآرہے؟
عابد وزیر خان: دیکھیں ہر دور کے اپنے منفی و مثبت پہلو ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے میں سکولوں کے رقبے وسیع ہونے کی وجہ سے کھیل کود کے زیادہ موا قع ہوتے تھے اور بچے جسمانی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔یہ وسیع رقبہ گورنمنٹ سکولوں و کالجوں کے پاس تھا۔ جب گورنمنٹ کا تعلیمی معیار خراب ہونا شروع ہوا تو لوگوں نے نجی تعلیمی اداروں کا رخ کیا ۔ اور نجی تعلیمی اداروں کے پاس رقبہ کم ہوتا ہے اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔کیونکہ جب جگہ نہیں ہے تو وہ بچوں کو جسمانی سرگرمیوں کے مواقع فراہم نہیں کرسکتے۔اسکے علاوہ پاکستان کے حالات کی وجہ سے سیکورٹی کے مسائل بہت زیادہ ہیں جسکی وجہ سے ہم بچوں کو باہر بھی لیکر نہیں جاسکتے۔ہمارے خیال میں بچے کی جسمانی صحت کے مسائل بڑھیں گے اور نتیجتاً یہ مجموعی طور پر نقصان دہ ہے۔
دی ایجوکیشنسٹ: آپکے خیال میں ایک اچھے طالب علم اور ایک اچھے انسان میں کیا
فرق ہوتا ہے؟
عابد وزیر خان: میرے خیال میں ایک اچھا طالب علم ایک اچھا انسان تو ہوسکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایک اچھا انسان ، اچھا طالب علم بھی ہو۔اچھا انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشرے میں پنپنے والے اخلاقی اقدار کی پاسداری کرے۔ بنیادی طور پر کپس سکول اقدار پر کام کرہا ہے۔کپس میں پڑھنے والے کسی بھی طالب علم سے پوچھ لیں ۔ ہم نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا، نہ کبھی پیپر آؤٹ کروایا نہ پیپر والے دن پیپر حل کروایا۔تو ہم خود بھی ان اخلاقیات کی پاسداری کرتے ہیں اور اپنے طالب علموں کو بھی یہ تربیت دیتے ہیں۔پاکستان میں مسئلہ ہی ہے کہ ہمارے طلباء کے لیے کوئی مثالی شخصیت موجود نہیں ہے۔ اور ایسے لوگوں کی شرح تو اور بھی کم ہے جنہوں نے اخلاقیات کے ساتھ ترقی کی۔لہذا یہ اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی اخلاقی تربیت پربھی توجہ دیں کیونکہ ا خلاقیات کے بغیر کوئی بھی طالب علم اچھا انسان نہیں بن سکتا۔اور الحمداللہ کپس سکول یہ کام کرہا ہے۔
دی ایجوکیشنسٹ:آپ کے مخالفین آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ انٹری ٹیسٹ کو ختم
ہونے سے روکنے کیلئے آپ نے بہت رقم خرچ کی ؟
عابد وزیر خان : نہ ہم نے کبھی کوشش کی کہ انٹری ٹیسٹ ہو اور نہ ہم نے کبھی کوشش کی کہ انٹری ٹیسٹ نہ ہو۔،میری فلاسفی مکمل طور پر مختلف ہے۔میری فلاسفی یہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ نہیں ہونا چاہیے۔اور یہ میں آج سے نہیں بلکہ پچھلے ۲۰ سالوں سے کہہ رہا ہوں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ بورڈ ہر قسم کی غلطی سے پاک ہو نا چاہیے، بچے امتحانات دیں اور میرٹ کی بنیاد پر انکے داخلے ہوں۔جب میں انجینئیر بنا اورNesPak میں ملازمت کی تو اس وقت نیس پاک نے پہلی مرتبہ ٹیسٹ لیا تھا۔ورنہ اس سے پہلے انکا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ یو ای ٹی کے نمبروں کی بنیاد پر وہ ملازمت دیدیتے تھے۔جب میں اندر گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپکا کیا خیال ہے ٹیسٹ ہونا چاہیے کہ نہیں؟ تو میرا جواب یہ تھا کہ آپ دس سوالات کے اندر کسی کے علم کے بارے میں کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں؟ لیکن۱۹۹۷ میں جن حالات میں انٹری ٹیسٹ کی شروعات ہوئی تھی وہ حالات ٹھیک تھے۔کیونکہ اس وقت بورڈ میں چیکنگ ایک مسئلہ تھی۔اس وجہ سے حکومت نے انٹری ٹیسٹ کی بنیاد رکھی اور ان حالات میں یہ ایک صحیح فیصلہ تھا۔اب ہم جیسے لوگوں کا کام ہوتا ہے سسٹم کو سمجھنا اس کے ساتھ چلنا اور اس سے فائدہ حاصل کرنا۔کیونکہ ہم سسٹم نہیں بدل سکتے وہ کام حکومت کا ہے۔اب جبکہ آپ اس سسٹم کا حصہ ہیں تو آپکی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اس حساب سے تیار کریں ۔انٹری ٹیسٹ ختم ہوجانے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
دی ایجوکیشنسٹ: آپ کے نزدیک گورنمنٹ سکولوں کے گرتے ہوئے میعار کی وجہ کیا ہے؟
عابد وزیر خان : گورنمنٹ سکولوں کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ انتظامیہ اور اساتذہ کی جانب سے کام کے ساتھ وابستگی کی کمی ہے۔میری جب بھی حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے، میں نے ایک بات پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ آپ کے اپنے بچے دوسرے سکولوں میں کیوں پڑھ رہے ہیں؟میرے خیال میں حکومتی عہدیداروں اور ایم این اے پر یہ واجب ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں سے تعلیم دلوائیں۔میری بیٹی اگر کپس کے علاوہ کسی اور تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کرے گی تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ادارہ کپس سے بہتر ہے۔لیکن کیونکہ مجھے پتا ہے کہ کپس شعبہ تعلیم میں بہترین سہولیات فراہم کرہا ہے اسی وجہ سے میں نے اپنی بیٹی کو کپس سے ہی تعلیم دلوائی ہے۔گورنمنٹ سیکٹر نے دوسروں کے لیے اسکول کھولا ہوا ہے یہ ایک اہم فرق ہے۔لیکن جب ہم کام کرہے ہیں تو ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ قوم ہماری ہے اور ہم نے اس قوم کے لیے کام کرنا ہے۔کسی بھی بزنس کا بنیادی مقصد اپنے گاہکوں کو مطمئن کرنا ہوتا ہے اور کپس نے ہر سطح پر خواہ میٹرک ہو انٹر ہو یا انٹری ٹیسٹ ، اپنے طلباء اور انکے والدین کو مطمئن کیا ہے۔ کسی بھی ادارے کو چلانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسکی انتظامیہ اس بات کا تجزیہ کرے کہ جس طریقے سے وہ اس ادارے کو چلا رہے ہیں کیا وہ طریقہ ٹھیک ہے؟
دی ایجوکیشنسٹ: ابھی حال ہی میں حکومت نے کچھ سرکاری تعلیمی ادارے نجی اداروں کے سپرد کیے ہیں بطور تعلیم دان آپکی کیا راے ہے؟
عابد وزیر خان: حال ہی میں حکومت نے کچھ سرکاری تعلیمی ادارے نجی عہدیداروں کے سپرد کیے ہیں بد قسمتی سے وہ پرائمری سکولز ہیں۔ اور کل ملا کر ۷جماعتیں ہر سکول کے حصے میں آتی ہیں۔اب ۷ جماعتوں کے لیے کم سے کم ۷ اساتذہ اور ایک پرنسپل موجود ہونے چاہیے لیکن اگر آپ انکا ریکارڈ دیکھیں تو ہر سکول کے لیے صرف ۳ اساتذہ مختص کیے گئے ہیں۔جبکہ کچھ ایسے بھی سکول ہیں جن میں کوئی استاد نہیں۔یہ بات حکومت کو سوچنی چاہیے اور ترجیحات رکھنی چاہیے۔ بالفرض اگر حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو لیپ ٹاپ تقسیم کرنے سے پہلے اساتذہ بھرتی کرنے پر کام کرنا چاہیے۔
اسکے علاوہ اساتذہ کی تربیت بہت اہم ہے۔ سرکاری سکولوں میں نہ اساتذہ کی تربیت کی جاتی ہے اور نہ حوصلہ افزائی۔ہمارے ملک میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ تو مختص ہے مگر اساتذہ کو ۴ ہزار ماہوار پر بھرتی کرلیا جاتا ہے۔
دی ایجوکیشنسٹ: نجی تعلیمی اداروں کی بڑ ھتی ہوئی فیس غریب کے بچے کو معیاری
تعلیم سے دور کر رہی ہے ۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
عابد وزیرخان:فیسوں کے معاملے میں نجی ادارے مجبور ہیں۔ ہر سال سکول و کالج کی عمارات کا کرایہ بڑھتا ہے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے طلباء کی فیسوں میں بھی کم سے ک ۱۰ فیصد ہر سال اضافہ کرنا پڑتا ہے۔سعودی عرب میں گورنمنٹ، سکول کا معیار اور انفاسٹرکچر دیکھ کر فیسیں مختص کرتی ہے اور ان فیسوں میں اضافہ بھی گورنمنٹ ک اجازت سے کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اگر حکومت ایسا کوئی نظام متعارف کروائے تو ہم اس کے مطابق چلنے کے لیے تیار ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں خرچے بہت زیادہ ہیں اور حکومت سہولیات فراہم نہیں کرتی۔حکومت نے اسکو کمرشلائز کردیا ہے جس کی وجاہ سے ہمیں کمرشل سطح کے ٹیکس دینے پڑتے ہیں۔ میرے خیال سے حکومت اور نجی عہددیداروں کو بیٹھنا چاہیے اور باہمی مشاورت سے ایک دوسرے کے فائدے نقصانات دیکھتے ہوئے فیصلے لیے جانے چاہیے۔جو سہولیات حکومت کے پاس ہیں اس سے نجی اداروں کو فائدا پہنچنا چاہیے اور جو سہولیات نجی اداروں کے پاس ہیں اسے چاہیے کہ حکومتی اداروں کو اس سے نفع پہنچائے۔
دی ایجوکیشنسٹ: KIPSکی وہ کون سی خصوصیا ت ہیں جو اسے دوسرے تمام اداروں سے منفرد بناتی ہیں؟
عابد وزیرخان : ایک تو ہمارا 5 i کا تصور ہے اور دوسرا TRUST یعنی اعتبار ہے۔trust بھی ایک مخفف ہے جس میں T سے مراد teaching methodology ( پڑھانے کا طریقہ کار)۔ کپس کا اپنا ایک منفرد پڑھانے کا طریقہ ہے۔ ہمارے ادارے میں جو اساتذہ بھرتی کیے جاتے ہیں انکی ہر مضمون کے حساب سے تربیت کی جاتی ہے۔ R سے مراد responsiblity ( ذمہ داری) ہے۔ہم اپنے طلباء کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں۔جب ایک بچہ ہمارے پاس آتا ہے تو ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ بچہ پیسے کا ذریعہ ہے۔بلکہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ ایک امتحان ہے اور ہمیں اس امتحان میں کامیاب کرے۔ U سے مراد uniqueness ( انفرادیت) ہے یعنی دوسروں سے مختلف کام کیا جائے۔ کپس ہر سال کوئی منفرد چیز متعارف کرواتا ہے۔جیسے اگر انٹری ٹیسٹ کی بات کریں تو پہلے ہم بچوں کو نوٹس دیا کرتے تھے، پھر ہم نے کتابیں متعارف کروائیں۔ S سے مراد student centric system ہے۔ یعنی ہم جو بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو طالب علم کو اسکا مرکز بناتے ہیں کہ کس طرح یہ منصوبہ بندی طلباء کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔پھر آخر میں T سے مراد team work یعنی متفقہ کوشش۔یہ متفقہ کام انتظامیہ ، والدین اور طلباء کے ساتھ ہوتا ہے۔ کسی بھی ادارے کی ترقی کا یہ اہم جز ہے۔
دی ایجوکیشنسٹ: کیا آپکو نہیں لگتا کہ وزارت تعلیم کا قلمدان شعبہ تعلیم سے وابستہ کسی شخص کو ملنا چاہیے؟
عابد وزیر خان:آپکو معلوم ہے کہ پاکستانی سیاست کیکیا حالات ہیں اور جو نظام چل رہا ہوتا ہے اس میں تبدیلی ہونی چاہیے ۔سب سے پہلے تو آپکو ایم پی اے اور ایم این اے پڑھے لکھے لوگ لانے چاہییں۔لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ دوسرا آپکو ٹیکنوکریٹس چاہییں۔جیسے شعبہ صنعت کا وزیر ایک صنعت کار ہونا چاہیے اسے طرح شعبہ تعلیم کا وزیر ایک ٹیکنوکریٹ ہی ہونا چاہیے۔
دی ایجوکیشنسٹ:KIPS کس حد تک غریب طلباء کی مدد کرتا ہے؟
عابد وزیر خان ؛کپس غریب طلباء کو مکمل طور پر سپورٹ کرتا ہے۔ہمارا سکالرشپ سسٹم اسی مقصد کو پورا کرتا ہے۔ کپس میں کوئی بچہ آجائے تو فیس کی وجہ سے واپس نہیں جاتا۔اس وقت کپس کے اندر ۲۰ فیصد سے زیادہ بچے مفت تعلیم حاصل کرہے ہیں۔اور ۱۰ فیصد سے زیادہ بچے پوری فیس نہیں دے رہے۔
دی ایجوکیشنسٹ : کیاKIPS سرکاری سکولز کی بہتری کے لی60ے بھی کوئی اقدامات کر رہا ہے؟
عابد وزیر خان : حال ہی میں حکومت نے جو سرکاری سکول نجی اداروں کے سپرد کیے ہیں لیکن جب ہم نے حکومت کی جانب سے مختص کردہ فنڈز کا حساب کتاب لگایا تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم ابھی میعاری تعلیم نہیں دے سکتے۔ہمارا ارادہ تو ہے کہ اگلے آنے والے سالوں میں حکومت سے ایک سکول لے لیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس فیس کے ساتھ میعاری تعلیم کا فروغ ممکن نہیں۔دوسرا مسئلہ یہ کہ حکومت جو سکول دے رہی ہے اس میں سہولیات کا فقدان ہے۔۷ جماعتوں کے لیے صرف ۲ کمرے دیے گئے ہیں۔لہذا ان مسائل کی وجہ سے ہم ابھی کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔لیکن ہم نے ثابت کرنا ہے کہ گورنمنٹ سیکٹر میں بھی کوئی نہ کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے۔لیکن پہلا قدم اٹھانے کی بہت ضرورت ہے۔ فائدہ فاونڈیشن کا اہم مقصد یہ ہے کہ اسکی انتظامیہ مختلف سکول و کالجز میں جاتی ہے اور انہیں کیرئیر کونسلنگ کے بارے میں آگہی فراہم کرتی ہے۔اور پھر ہماری ٹیم ان اداروں میں جاکر لیکچر دیتی ہے اور طلباء کو معلومات فراہم کرتی ہے کہ آپ نے پڑھنا کیسے ہیں کام کیسے کرنا ہے اچھے نمبر کیسے حاصل کرنے ہیں یعنی کیرئیر کونسلنگ کے اوپر راہ نمائی کر کے آتی ہے۔کپس اس ادارے کو اثاثے فراہم کرتا ہے۔اور ہم اس کی کوئی مشہوری نہیں کرتے۔
دی ایجوکیشنسٹ :مستقبل کے حوالے سے کپس کے کیا مقاصد ہیں؟
ؑ ٓ عابد وزیرخان؛ مستقبل کے حوالے سے ہمارا سب سے بڑا منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کا ہر بچہ کسی نا کسی لحاظ سے تعلیم یافتہ ہو جائے۔سستی اور معیاری تعلیم ، کپس کا مقصد ہے۔”تعلیم سب ک لیے” ہمارا مرکزی خیال ہے۔دوسرا معیاری تعلیم ہمارا مرکزی مقصد ہے۔ہمارا تیسرا اہم مقصد ۲ سے ۳ سال کے اندر یونیورسٹی شروع کرنے کا ہے۔
دی ایجوکیشنسٹ : ہمارے ملک کی شرح خواندگی کو جانچنے کے حوالے سے جو پیمانہ ہے کیا
آپ اس سے مطمعن ہیں؟
ؑ ٓ عابد وزیرخان؛کچھ کام ہم صرف خانہ پوری کے لیے اور دنیا کو بیوقوف بنانے کے لیے کرہے ہوتے ہیں۔اگر ہم خواندگی کا پیمانہ میٹرک کو بنا دیں تو ہمارے ملک میں صرف ۱۰ فیصد آبادی میٹرک پاس ہے۔تو حکومت نے خواندگی کا پیمانہ یہ بنا دیا کہ جس کو اپنا نام لکھنا آتا ہو وہ پڑھا لکھا تصور کیا جائے گا۔اس طرح سے آپکی شرح خواندگی بڑھ جائے گی۔بد قسمتی سے ہماری حکومت زیادہ تر کام قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے کرہی ہوتی ہے۔اگر حکومت اپنا کام ٹھیک کررہی ہوتی تو ملک کیونکر ترقی نہ کرتا۔ ۱۹۷۰ تک پاکستان ، متحدہ عرب امارات کو مدد بھیجتا تھا۔لیکن آج پاکستان ان سے جاکر مانگتا ہے۔ وہ تیل ختم ہونے کے باوجود وہ پھل پھول رہے ہیں،کیونکہ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اس کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔
دی ایجوکیشنسٹ: ہمارے قارئین و طلبہ کے لیے کوئی خاص پیغام؟
عابد وزیر خان۔ میں سمجھتا ہوں ’دی ایجوکیشنسٹ‘ ایک بہت نیک کام کررہاہے۔لہذا اس پرایک اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو بچہ ان سے رابطہ کرے اسکی ٹھیک سے راہنمائی کریں۔ اسکو اپنا بچہ سمجھیں اور اسکو اس مقام پر پہنچائیں کہ وہ اپنی قوم کیلئے ایک کارگر شہری بن سکے۔جیسے کپس کا مقصدعالمی سطح پر مفیدو کامیاب شہری تیار کرنا ہے۔ جب آپ دوسری اقوام کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں تو آپ ان سے اس وقت تک مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک آپ ان سے بہتر نہیں ہونگے۔
انٹرویو: محمد اسد سلیم، زینب لاشاری ، سیدہ رامین کامران
تصاویر: عبداللہ وارث