
قانون تحفظِ حقوق نسواں پر تو ہم بعد میں بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم اس قانون کے مخالفین یعنی اپنے راسخ العقیدہ مسلمان بھائیوں سے
یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ مساواتِ مرد وزن یعنی عورت اور مرد کی مساوی یا برابری کی حیثیت کو شرعی طور پر درست مانتے ہیں؟ اگر مانتے ہیں تو پھر اعلان کریں کہ آئندہ سے نکاح، طلاق اور قانون شہادت و وراثت میں ان کے ساتھ بوجہ جنس امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا کیا وہ عورت کی قیادت، امامت یا سربراہی کو چاہے وہ اندرونِ خانہ یعنی گھر کے اندر ہو یا گھر سے باہر پنچائت میں ہو، چاہے سیاست، عدالت یا حکومت میں ہو، درست تسلیم کرتے ہیں؟ عورت چاہے کت
نی متقی، عالمہ فاضلہ یا صالحہ کیوں نہ ہو ہمارے یہ دینی لوگ اس کی قیادت و امامت کو کسی بھی اجتماعی شعبے میں کیا، خالص دینی مقام یعنی مسجد میں ہی قبول کرنے کیلئے تیار ہیں؟ قیادت و امامت تو رہی ایک طرف ہم محض یہ پوچھتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ ان کی اپنی خالص اسلامی حکومت قائم ہو تو کیا وہ مخلوط قومی اسمبلی یا سینٹ کو قبول فرمائیں گے؟ وطنِ عزیز کے جو موجودہ مخلوط ادارے ہیں چاہے وہ تعلیمی، سماجی یا سیاسی ادارے ہوں یا دیگر انتظامی ادارے ان میں وہ عورت مرد کو شانہ بہ شانہ محنت کرنے یا اکھٹے کام کرنے کو کیا وہ جائز یا شرعی طور پر درست قرار دیتے ہیں؟
اس سے بھی آگے بڑھ کر ہم عورت کی مظلومیت واضح کرنے کیلئے اپنے راسخ بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر کسی مرنے والے کا ایک ہی بیٹا ہو تو جس طرح اس کی تمام جائیداد اسے منتقل ہو جائے گی تو کیا بیٹی کی صورت میں بھی آپ یہ اصول قبول فرمائیں گے؟ ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر آٹھ دس بیٹیاں بھی ہوں تب بھی کیا آپ ان کی اس وراثتی حیثیت کو تسلیم کریں گے جو اکلوتے بیٹے کی صورت قبول کر رہے ہیں؟ لیکن آپ کو اس میں ذرا شرمندگی یا بے انصافی دکھائی نہیں دیتی ہے آخر کیوں؟
مسلے کی تفہیم کیلئے ہم ایک اور مثال پیش کرتے ہیں کہ بالفرض آپ کی خالص اسلامی حکومت پاکستان میں قائم ہو جاتی ہے اور پھر وہ کسی وجہ یا تنازعہ پر بھارت کے ساتھ جنگ کرتی ہے وہاں سے مال و اسباب کے ساتھ بہت سی ہندو عورتوں یا لڑکیوں کو اٹھا لاتی ہے ما بعد ان خواتین کو وہ اپنے سپاہیوں میں بطور کنیز بانٹ دیتی ہے تاکہ وہ ان کے ساتھ بغیر نکاح کے جنسی تعلقات قائم کر سکیں اس کے بعد چاہے وہ انہیں اسی کام کیلئے آگے فروخت کر دیں یا اپنے دوستوں کو تحفہ کے طور پر دے دیں۔ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے نزدیک تو یہ ایک جنگی جرم ہے جنیواکنو نشینز تورہے ایک طرف یو این ہیومن رائٹس چارٹر ہی اسے برداشت نہیں کرے گا وہ اسے غیر انسانی رویہ قرار دے گا جبکہ آپ کے نزدیک یہ تمام کسب عین اسلامی قرار پائے گا؟ کیا ایسے نہیں ہے؟
ہماری ان حوالوں سے مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد سے بھر پور بحثیں ہوئیں جو ایک طرف تو خاندانی نظام کیلئے جان چھڑک رہے ہوتے تھے دوسری طرف اسی سانس میں یہ فرما رہے ہوتے تھے کہ بہو کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے سسر سے بھی پردہ کرے چہرہ تک نہ دکھائے کیونکہ وہ اس کیلئے غیر محرم ہے رہ گئے جیٹھ یا دیور یعنی خاوند کے بھائی وہ تو اس بھابھی کیلئے شیطان قرار دیے گئے ہیں یعنی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ان میں سے کسی کے ساتھ بیٹھ سکے یاوہ اس کا چہرہ بھی دیکھ سکیں عرض کی ڈاکٹر صاحب جو غریب فیملی ایک یا دو کمرے کے گھر میں رہتی ہے اس کیلئے یہ کیسے ممکن ہے؟ جواب ملا مجھے نہیں معلوم کیسے ممکن ہے جیسے بھی ممکن ہے وہ اس کی پابندی کرے۔ اسلامی یا شرعی طور پر اس کی اجازت نہیں ہے ڈاکٹراسرار مرحوم تو راہی ملکِ عدم ہو چکے ہیں ہم عرض کرتے ہیں کہ ہمارے صحافی حضرات جو دینی علماء حاضر سروس موجود ہیں ان کی خدمت میں حاضرہو کر اس نوع کے خالص سماجی مسائل ڈسکس کر کے دیکھ لیں اپنا سامنہ لے کر نہ رہ گئے تو تب کہیے گا۔ ایک صحافی نے جب سید منور حسن سے یہ سوال پوچھ لیا کہ سید صاحب ایک مظلوم عورت سے زنا بالجبر ہوا ہے لیکن اس بیچاری کے پاس تزکیتہ الشہود کے معیارپر پورا اترنے والے چار عاقل بالغ مسلمان مرد موجود نہیں ہیں تو وہ بیچاری کہاں جائے؟ جواب ملا کہ اگر جرم کی شرعی شہادت موجود نہیں ہے تو پھر خاموشی سے واپس اپنے گھر جائے گھر میں بیٹھے۔
حضرت گھر میں تو آپ نے اسے صدیوں سے بٹھا رکھا ہے آپ کا بس چلے تو اسے باپ کے مرنے پر بلا اجازت خاوند گھر سے نکلنے کی اجازت بھی نہ دیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر گھر میں ہی اس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے خاوند ظالم اور بد تہذیب ہے موقع بے موقع اسے گالم گلوچ کرتا ہے یا ا پنے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر اسے بغیر داغ دیے مارتا پیٹتا ہے تو ایسی صورت میں وہ کہاں جائے؟ کس سے فریاد کرے؟۔۔ رشتے داروں سے؟ جو بالعموم تماش بین ہوتے ہیں اگر وہاں بھی شنوائی نہیں ہوتی تو وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ کیا ہمارے ملکی قانون میں اتنی جان نہیں ہونی چاہیے کہ اس دکھیاری کا دکھ سن سکے اور اسے کچھ تحفظ فراہم کر سکے؟ دراصل قانون تحفظ حقوق نسواں کی ضرورت ایسی ہی صورتحال میں درپیش ہوتی ہے۔ مجوزہ قانون ان مجبور، مظلوم ، کمزور دکھی عورتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کی ہلکی سی کاوش قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے دینی علماء اس کے خلاف یوں صف آراء ہوئے ہیں جیسے کفروالحاد دنیا میں غالب آنے والا ہے اے ایمان والو فوری اکٹھے ہو جاؤ۔ جو ایک دوسرے کو دیکھنے یا ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑہنے کے بھی روادار نہ تھے وہ سب اس قانون کے خلاف یوں اکٹھے ہو رہے ہیں کہ جیسے عورت کو تحفظ دینے والے قانون سے مذہب خطرے میں ہے بچاؤ بچاؤ دوڑو دوڑو۔۔ حالانکہ ہماری نظر میں یہ قانون بھی انتہائی کمتر ہے کم ازکم اس میں ایک شق یہ شامل ہونی چاق تھی کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دے تو اپنی آدھی جائیداد بھی اسے دینے کا پابند ہو گا جس کے سہارے وہ اپنی اگلی زندگی گزار سکے۔
بے حسی کی انتہا قابلِ ملا خطہ ہے ابھی لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خود کش حملہ ہوا ہے معصوم پھولوں اور کلیوں جیسے بچے درجنوں خواتین و حضرات موت کے گھات اتار دیے گئے ہیں سینکڑوں زخمی ہسپتالوں میں پہنچے اس وحشت و دہشت کے خلاف کتنے مولوی صاحبان نے جلوس نکالے یا ایکا کرتے ہوئے پروپیگنڈہ مہم چلائی لیکن اگر مظلوم خواتین کے لیے حکومت نے ہلکی سی کاوش کرنا چاہی تو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ بظاہر جواز کتنا بے ضر ر ہے یہ کہ اس سے عورتوں مردوں میں بد گمانیاں بڑھ جائیں گی یہ کہ اس سے خاندانی نظام ختم ہو جائے گا حکومت کا نہیں خاندان کے بزرگوں کا یہ حق ہے کہ وہ ایسی عورتوں کی فریاد سنیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس قانون نے خاندان کے بزرگوں پر کب قدغن لگائی ہے کہ وہ مظلوم خواتین کی فریاد نہ سنیں۔۔ جن گھروں میں تہذیب اور شائستگی ہے ان کے تو یہ مسائل ہی نہیں ہیں جہاں بزرگوں کی سنی جاتی ہے وہاں پر تو وحشت کی یہ چنگاریاں اٹھتی ہی نہیں ہیںیہ قانون تو محض ایسی بد نصیب عورتوں کے لیے تجویز کیا گیا ہے پورے خاندان میں جن کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بد گمانیاں کیا بڑھیں گی وہ اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہیں تونوبت یہاں تک پہنچتی ہے بصورت دیگرکسی عورت کا یہ دل نہیں کرتا کہ وہ اپنا گھر خراب کرے لیکن اگر اسے کوئی ظالم خاوند ٹکر جائے تو وہ کیا کرے۔
ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری روایتی مسلم سوسائٹی میں عورت کی حیثیت کمتر سمجھی جاتی ہے۔ کسی کے گھر میں تیسرا چوتھا بیٹا پیدا ہو جائے تو وہ خوشی سے چھلانگیں مارتا پھرتا ہے لیکن اگر بد قسمتی سے تیسری چوتھی بیٹی پیدا ہو جائے تو اچھے بھلے گھر میں ’’پھوڑی‘‘ پڑ جاتی ہے بظاہر زبان سے اس کا اعتراف کریں نہ کریں لیکن زبانِ حال چیخ رہی ہوتی ہے کہ ہائے یہ کیا ہو گیا بیٹیوں والا ہمارے سماج میں ’’بیچارہ‘‘ کہلاتا ہے مسجدوں میں اولادِ نرینہ کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہیے کیا یہ حقائق نہیں ہیں؟بیٹے کے حصول کی خاطر لوگ بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں آبادی میں خوفناک حد تک جو اضافہ ہو رہا ہے اس میں ایک بڑا فیکٹر بیٹیوں کے بالمقابل بیٹے کا حصول ہے پھر بیٹوں کی جوڑیاں بنانے کی خواہش اس پر مستزاد ہے۔
جس مغرب کو ہم اٹھتے بیٹھے کو سنا اپنا دینی فریضہ خیال کرتے ہیں آخر وہاں اس نوع کے سماجی رویے کیوں نہیں ہیں؟۔۔ امریکی صدر باراک اوباما کی دو بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی محض ایک بیٹی تھی بیٹا کوئی نہ تھا اسی طرح سابق صدر بش کی بھی محض دو بیٹیاں تھیں بیٹا کوئی نہ تھا ہمارے ہاں ایسی صورتحال میں رونا پیٹنا شروع ہوجا تا ہے معمولی چودھری بھی دوسری شادی کے چکروں میں ہوتا ہے کہ اولاد نرینہ حاصل کر سکے۔ آخر مغرب میں یہ رویے کیوں نہیں ہیں؟
ہم عرض کرتے ہیں جب تک ہم نے عورت کو محض لپ سروس کی بجائے سوسائٹی میں برابری کا قابلِ عزت مقام نہ دیا او ر اس بد نصیب کے حقوق کو با ضابطہ قانونی تحفظ فراہم نہ کیا بچیوں کی پیدائش کو قابلِ فخر سمجھا جائے گانہ ہی سو سائٹی ترقی یا اخلاقی بلندی تک پہنچ پائے گی۔ یہ کیسا خاندانی نظام ہے جس میں حوا کی بیٹیاں غیرت کے نام پر روزانہ موت کے گھات اتاری جا رہی ہیں اور سماج کی آنکھیں نم ہوتی ہیں نہ خاندانی نظام میں انسانی ہمدردی اٹھتی ہے۔ کیا ہم نے ایسے نام نہاد خاندانی نظام کا اچار ڈالنا ہے جس میں مظلوم بے سہارابچیوں کے انسانی حقوق تک محفوظ نہیں۔ جب ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ کہتے ہیں کہ ’’ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘تو پھر اپنی بچیوں کی خوشیوں کو کٹرے خاندانی نظام کی بھینٹ کیوں چڑہا دینا چاہتے ہیں؟ ایک عاقلہ بالغہ لڑکی اگر اپنی پسند کی شادی کرے تو ہماری سوسائٹی اسے نفرت بھری نظروں سے کیوں دیکھتی ہے ؟ جبکہ ایک نا بالغہ کی جبری شادی پر تو مولوی صاحبان کو کبھی غصہ نہیں آتا ہے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ عورتوں کے بالمقابل مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں ہم عرض کرتے ہیں کہ ایسے مردوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے آخر مستسنیاتExceptions کس قانون میں نہیں ہوتیں لیکن قوانین عمومی رویوں پر بنتے ہیں جو سوسائٹی کے کمزور اور دبے ہوئے طبقات کو سہارا دینے کے لیے ہوتے ہیں ۔کسے نہیں معلوم کہ عورت مرد کے بالمقابل جسمانی طور پر کمزور ہے لیکن کمزور کو سہارا دینے کی بجائے ذلیل تو نہ کریں ہم نے ربع صدی تک بحیثیت چئرمین مصالحتی و ثالثی کونسلز کام کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عورت کل بھی مظلوم تھی ، عورت آج بھی مظلوم ہے اور اگرہم نے Male chauvinism یا مرد کی روایتی برتری جیسے تصورات ختم نہ کیے تو عورت ہماری مسلم سو سائٹی میں آئندہ بھی مظلوم ہی رہے گی اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے۔ہم اپنی معزز خواتین کی خدمت میں بھی یہ عرض کرتے ہیں کہ وہ تعلیم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر معاشی خود کفالت کی منزل تک پہنچیں کیونکہ نیچے والا ہاتھ ہمیشہ کمتر ہی رہتا ہے اور مرد انگی کے تفاخر میں مبتلا لوگوں سے بھی کہتے ہیں کہ اگر آپ کماتے یا خرچ کرتے ہیں تو عورت کے بالمقابل یہ کوئی ایسا کارنامہ ہرگز نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر آپ اپنی برتری اور عورت کی کمتری کا ڈھنڈورا پیٹیں۔ مت بھولیں کہ آپ نے بھی کسی خاتون ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔بچہ جننے اور پالنے پوسنے کی جواذیت ایک عورت سہتی ہے تخلیق کا یہ وصف عورت کے لیے ایسی ابدی عظمت ہے کہ روزی کمانے کی ہزار کاوشیں اس عظمت کے سامنے ہیچ اور سرنگوں ہیں۔