قلم کی جو جگہ تھی وہ وہیں ہے
پر اس کا نام تک باقی نہیں ہے
قلم کی نوک پہ نکتہ ہے کوئی
جو سچ ہو وہ بھلا جھکتا ہے کوئی
وہ جس بچپن نے تھوڑا اور جینا تھا
وہ جس نے ماں تمھا را خواب چھینا تھا
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
وہ جس کو سوچ کے سوتی نہیں ماں
کتابیں دیکھ کے روتی رہی ماں
ہے کس کی واپسی کی راہ تکتے
یہ دروازہ کھلا بابا کیوں رکھتے
وہ جو ساری ہی نظروں سے گرا تھا
نہ تھا انسان نہ جس کا خدا تھا
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
ڈر کے سامنے، ہنستا گیا ہے
جو اپنا چھوڑ کر بستہ گیا ہے
تھی اک کیسی کہانی لکھ گیا وہ
کتابوں میں نشانی رکھ گیا وہ
وہ ماتھا چومنے والا لہو تھا
وہ جس نے خواب کو بھی خوں کیا تھا
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے