لاہور میں تیسرے سالانہ ادبی میلے کا اہتمام کیا گیا جو ۲۰ تا ۲۲ فروری تک مال روڈ پر واقع الحمرا آرٹس کونسل میں پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔اس خوبصورت ادبی میلے میں دنیا کے مختلف ممالک سے آئی ہوئی اہم شخصیات نے اپنی موجودگی سے اس کی تزئین و آرائش کو مزید درخشاں بنادیا تھا ۔پاکستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے مختلف فنکاروں نے شائقین کو اپنے فن سے محظوظ کیا اور انھوں نے بہت سی خوشگوار یادوں کے زیور کو زیبِ تن کر کے ان نایاب اور پر مسرّت لمحات کو اپنے دل و دماغ پہ نقش کر لیا ۔غورطلب بات یہ ہے کہ اس شورش زدہ دور میں کوئی نغمۂ جانفزا کہنا بلاشبہ جسارت اور شجاعت سے کم نہیں۔دہشتگردی کے پیشِ نظر نا ساز گار ملکی حالات میں ایسی بڑی تقاریب اورپر ہجوم جگہوں پر کسی نا خوشگوار واقعہ کا خوف ہر وقت ذہن میں مقیم رہتا ہے تاہم سنگینئ حالات کے باوجود ایک کامیاب ادبی میلے کا انعقاد منتظمین کیلئے لائقِ تحسین ہے۔انتہائی سخت سیکیورٹی میں تین روز تک قائم رہنے والے میلے میں مختلف نوع اور رنگا رنگ تقریبات لوگوں کے لئے دلچسپی کا با عث بنی رہیں۔خوش نصیبی سے مجھے بھی باذوق احباب کے ساتھ وہاں جانے کا اتفاق ہوا،ہفتے کی شام کو مختصر مگر گراں قدر مشاعرہ میسّر آیا،سو جب تک اختتام پذیر نہیں ہوا ،پہلی نشستوں پر براجمان رہے۔مشاعرے کی صدارت محترمہ کشورناہید کر رہی تھی ،ایک عرصے سے میں ان کا مداح ہوں،ان پہ نگاہ پڑتے ہی انکی مشہور غزل یاد کرنے لگا …
حسرت ہے، تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں تجھ سے مخاطب ہوں ،تیرا حال بھی پوچھوں
ان کے پہلومیں ملک کے نامور اور معروف شاعر ، ادیب اور دانشور جناب امجد اسلام امجدجلوہ افروز تھے۔ ’’زندگی کے میلے میں،اس قدر جھمیلے میں‘‘اپنی تمام تر رعنا ئیوں کے ساتھ بزمِ سخن کو جلا بخش رہے تھے۔نہایت عمدگی سے مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے میزبان ڈاکٹر صغر ی صدف نے ماں بولی پنجابی میں خوبصورت کلام حاضرینِ محفل کی سماعتوں کی نذر کیاجو یقیناًقابلِ ستائش تھا۔کچھ نئے چہرے بھی متعارف ہوئے،جنھوں نے کلام سنا کر اپنی اپنی ادبی بساط کیمطابق داد وصول کی، البتہ عباس تابش صاحب نے اپنا خوب رنگ جمایا۔شائقینِ ادب نے انہیں شہرۂ آفاق غزل سنانے پربے حد اصرار کیا۔چونکہ مجھے بھی وہ غزل پسند تھی اسلئے میری بیقراری بھی پل پل افزوں ہو رہی تھی۔بلآخر وہ لمحہ آ گیا جب موصوف کا لب و لہجہ اس حسیں انجمن میں مزید رس گو لنے لگا تھا،ان کے اشعار یادگار بن چکے تھے…..
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پے بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم تیرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
انہوں نے نسبتاً زیادہ پذیرائی حاصل کی اورتالیوں کے طویل دورانیے کادست بستہ ہو کر اپنے مداحوں کی محبت اور عقیدت کا عاجزانہ انداز میں جھک کر شکریہ ادا کیا۔یہ ایک ایسا یادگار مشاعرہ تھا جس میں گم ہو کر ہر شخص اپنے اپنے غم و آلام کو طاقِ نسیان کے حوالے کر کے شادمانی اور راحت محسوس کر رہا تھا۔آجکل کے الجھنوں سے لبا لب مصروف ترین،گھٹن اور بوریت کے تعفن زدہ ماحول سے خلاصی پا نے اوردروں بینی کو مات دینے کے لئے لوگ ایسی سخنِ دل شناس کے متمنی اور متلاشی ہیں جو انہیں خطرات،دہشت،فسادات او ر اسی قسم کی آفات سے دو چار کر نے کی بجائے کسی خوابِ گلفام سے آشنا کر دے۔اس میں کوئی شائبہ نہیں ہے کہ خاردار مسا فتوں سے کترا کر آغوشِ گل میں قیام کرنا ہر باشعور شخص کی آرزو ہے،سوہر فرد اس پت جھڑ اور خزاں رسیدہ لمحوں کو فراموش کر کے ،ماضی سے متصل تلخ ساعتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے،اپنے حال کو با کمال اور مستقبل کو خوشنما بنانے کا خواہاں ہے۔یہی امیدِمسّرت دیارِدل کو گل نما بنا کر معطر کئے رکھتی ہے،گویا زندگی کوئی گلستاں ہو۔