23 C
Lahore
Wednesday, December 6, 2023
HomeInterviewپاکستان ہمارے لئے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی سعودی عرب مسلمانوں...

پاکستان ہمارے لئے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی سعودی عرب مسلمانوں کے لئے ۔حرمیت سنگھ

Published on

spot_img

انٹرویو: اسدسلیم

پاکستان کے پہلے سکھ رپورٹراورنیوزاینکرحرمیت سنگھ کی دی ایجوکیشنسٹ کے ساتھ خصوصی گفتگو

 پاکستان سے جو پیار ملا وہ دنیا میں کہیں ملا ۔حرمیت سنگھ

دی ایجوکیشنسٹ: سب سے پہلے اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیں ؟

 میرا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقہ شانگلہ کی تحصیل چیسکر سے ہے ۔میں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی۔

دی ایجوکیشنسٹ: صحافت میں آنے کا خیال کیسے آیا ؟

حرمیت سنگھ : مجھے بچپن سے ہی لکھنے کا بہت شوق تھا۔میں سکول کے دنوں میں کہانیاں اور مختلف تحریرں لکھا کرتا تھا مگرانہیں اپنے  پاس ہی محفوظ کرلیا کرتا تھا ۔ بچپن سے ہی شوق تھا کہ صحافی بن کر پاکستان کا مثبت چہرا دنیا کے سامنے لایا جائے ۔ پھر فیس بک کا زمانہ آیا تو اپنی تحریریں وہاں لکھنی شروع کردیں ۔ اس کے بعدمیں  پھر باقائدہ طور پر پھر صحافت کے شعبے میں آگیا ۔

 

دی ایجوکیشنسٹ :  بطور سکھ آپ جب رپورٹنگ کے لئے جاتے تھے تو لوگوں کا سلوک آپ کے ساتھ کیسا ہوتا تھا ؟

حرمیت سنگھ : میں نے ایک سال تک اسلام آباد میں بطور رپوٹر فرائض سر انجام دیے۔   اس کے ساتھ ساتھ میں نے اخبارات میں کالم بھی لکھنے شروع کئے جسے عوام نے بے حد پسند کیا ۔ جب بھی  رپورٹنگ کے لئے جاتا تھا تو لوگوں کی طرف سے بہت پیار ملتا تھا ۔ لوگ میرے ساتھ تصاویر بنواتے تھے اور اس سے بہت خوشی بھی ہوتی تھی ۔  اب یہ ہوگا کہ میں ہر گھر کی سکرین میں جاو ں گا تو اور پیار ملے گا ۔

دی ایجوکیشنسٹ:  پاکستان کے پہلے نیوز اینکر بننے کے سفر میں کتنی  مشکلات درپیش آئیں؟

حرمیت سنگھ : مشکلات تو خیر اتنی درپیش نہیں آئیں کیونکہ میں پاکستان کا پہلا سکھ کالم نگاربھی ہوں اور اس سے پہلے اخبارات میں بطور رپورٹر بھی فرائض سر انجام دے چکا ہوں ۔ میں ملاشیاء میں تھا جب مجھے پبلک نیوز سے فون آیا اور انہوں نے مجھے آفر کی ہم ایک نیا چینل شروع کرنے جارہے  جس میں ہم آپ کو بطور اینکر  متعارف کروانا چاہتے ہیں ۔  جس کے بعد ایک سال تک میں نے ان کے دوسرے چینل   اے ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کیا اور مجھے انہوں نے پاکستان کے پہلے سکھ  نیوز کاسٹر کے طور پر متعارف کروایا ہے ۔  اس سے پاکستان کا دنیا بھر میں ایک مثبت پہلو اجاگر ہوگا ۔  پوری دنیا کو پتا چلے گا کہ اقلیتی  براردی پاکستان میں کتنی محفوظ ہے اوران کوکتنی آزادی حاصل ہے۔ ہمارے خلاف ہندوستان کے جوپراپیگینڈے ہیں وہ سب فرضی ہیں ۔ پاکستان میں ہربرادری کا بندہ اپنی زندگی اچھے طریقے سے گزاررہا ہے ۔ ہماری کمیونیٹی کے لوگ پاکستان کے مختلف شعبوں میں کام کرہے ہیں ۔

  نیوز اینکر تو بن گئے اب آگے پروگرام اینکر بننے کا بھی ارادہ رکھتے ہے ؟

 حرمیت سنگھ :  جی ارادہ تو ہے مگر پہلےبطور نیوز کاسٹنگ میں اپنے کام سے اپنا لوہا منواوں گا اور پھر اگر موقع ملا تو ضرور  پروگرام اینکر بھی بنوں گا ۔

دی ایجوکیشنسٹ : اگر انڈٰیا سے آفر آتی ہے تو کیا وہاں کام کریں گے ؟

حرمیت سنگھ : انڈیا سے آفر تو آتی ہیں مگر   میں نےانہیں قبول نہیں کیا اور نہ ہی  کھبی انڈیا میں کام کرنے کاارادہ کیا ۔  میرا ملک پاکستان ہے اور میرا جینا مرنا بھی اسی ملک میں ہے ۔ اس مٹی کا  ہم پر قرض ہے وہ پورا کروں گا چاہے وہ میری قلم سے ہو یا آواز سے ہو ۔ پوری دنیا میں جب بھی کوئی پاکستان میں اقلیتی برادری کے تحفظ کے بارے میں بات کرتا ہے تو میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ اقلیتوں کے لئے پاکستان سے زیادہ محفوظ ملک کوئی نہیں ہے ۔

دی ایجوکیشنسٹ:  پاکستانی حکومت آپ کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہے ؟

حرمیت سنگھ : میں دنیا میں بہت سے ملک گھوما ہوں مگر جو پیار پاکستان سے ملا وہ کہیں سے نہیں ملا  ۔  میڈیا میں آنے سےپہلے اے ایس ایف  کی بھرتی کے لئے گیا تھا وہا پر بھی بہت اچھے طریقے سے مجھے ویلکم کیا گیا مگر  ذاتی وجوہات کی بنا پر میں نے اس ادارہ میں کام نہیں کیا ۔ سکھ کمیونیٹی کے 80 فیصد مقدس مقامات پاکستان میں ہیں۔  بابا گروناننک نے بھی اس دھرتی پر جنم لیا ۔ پاکستان ہمارے لئےاتنا ہی مقدس ہے جتنا مسلمانوں کے لئے سعودیہ عرب ۔  انڈٰیا کی حکومتیں سکھوں کو پاکستان آنے سے روکتی ہیں ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی پر بھی انڈیا نے لوگوں کو پاکستان نہیں آنے دیا ۔  سکھوں سے میری بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ ان کے لئے ایسے حالات پیدا کردئیے جاتےہیں کہ وہ پاکستان نہ جاسکیں۔ ان کو ڈرایا جاتا ہیں کہ پاکستان کے لوگ اچھا سلوک نہیں کریں گے مگر جب وہ لوگ یہاں آتے ہیں تو ان کو بہت محبت ملتی ہیں ۔

دی ایجوکیشنسٹ: آخر میں کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟

حرمیت سنگھ: میں سب کو یہی کہنا چاہوں گا کہ دیکھو گھروں میں حالات خراب ہوجاتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم گھرکی بات محلے میں کرناشروع کردیں۔ ہمیں چاہئے کہ پاکستان کا مثبت چہرا دنیا بھر میں پھلائیں ۔

http://urdu.educationist.com.pk/?p=2615

Latest articles

Conference focuses “Emerging Issues in Library, Info Management”

Staff Report LAHORE: The Institute of Information Management (IIM), University of the Punjab, Lahore, hosted...

Dr. Tahir Mehmood Leads Successful PKR 18 Million Dairy Development Project

Dr. Tahir Mehmood, Associate Professor, CAMB, PU successfully completed the project worth PKR 18...

Three Continents, Six Countries; FIFA’S Century in Football.

FIFA, A nostalgic name, One gets déjà vu after hearing it. An event which...

Pakistan’s Falling apart Climate: Critical Activity Required 

By Aqsa Sajjad  Pakistan, like numerous nations around the world, is confronting the serious results...